حصہ : افغانستان -+

زمان اشاعت : چهارشنبه, 4 آگوست , 2021 خبر کا مختصر لنک :

پاکستانی قومی اسمبلی کے رکن کا اسلام آباد کی جانب سے طالبان کی مکمل حمایت کا اقرار

امیر حیدر خان ہوتی، قومی اسمبلی کے رکن اور عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیئرمین نے کہا: پاکستان افغانستانی طالبان کا بڑا حامی ہے۔


پاکستانی اخبار نوائے وقت کے مطابق امیر حیدر خان ہوتی، قومی اسمبلی کے رکن اور عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیئرمین، نے ہارون بلور کی تیسری برسی اور خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں ہونے والے سانحہ یکہ توت کے متاثرین کی تیسری برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ پشتونوں نے ۴۰ سال پہلے کی گئی غلطیوں کے نتیجے میں بہت غم دیکھے ہیں۔

انہوں نے پاکستانی حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کریں اور پشتونوں کو خونریزی اور ایک منصوبے کے تحت انجام دی جانے والی نسل کشی سے بچائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے چالیس سال پہلے خبردار کیا تھا کہ پاکستان دوسروں کی جنگ میں ملوث نہ ہو اور کسی تنازعے میں نہ پڑے۔ ان کی بات نہیں سنی گئی اور ان پر غداری اور پاکستان دشمنی کا الزام لگایا گیا۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کی پیشن گوئیاں لفط بلفظ سچ ثابت ہوئی ہیں اور ہم دوسرے ممالک کی سیاست میں مداخلت کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے آج ہم سن رہے ہیں کہ پاکستان افغانستانی طالبان کا قوی حامی ہے اور افغانستان میں کسی بھی قیمت پر ناقابل واپسی پیش رفت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ ہم پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے ایک دوسرے بیان میں کہا کہ پشاور کے قصہ خوانی بازار کے متاثرین سے لے کر بشیر بلور اور ہارون بلورتک، عوامی نیشنل پارٹی کی قربانیاں تاریخ میں ثبت ہیں۔ میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ مزید پشتونوں کی خونریزی بند کی جائے۔ پختونوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور اب وہ اپنے پیاروں کے جنازے نہیں اٹھا سکتے۔ افغانستانی عوام اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ آج امریکہ نے وہ جنگ ترک کر دی ہے جو اس نے چالیس سال پہلے شروع کی تھی۔ تمام فریقوں کو مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ پاکستان، چین، امریکہ، روس، اور ایران کو افغانستان میں امن کے قیام کی خاطر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چینی، روسی، ایرانی، اور پاکستانی اور شاید بھارتی افواج پر مشتمل ایک امن فوج کی تشکیل افغانستان کو کبھی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی سے بچا کر امن اور استحکام کے قیام کی طرف لے جا سکتی ہے۔

افغانستانیوں کے مابین مذاکرات، دوطرفہ مذاکرات وغیرہ، اس مقصد سے کہ ایک مخصوص گروہ کی حمایت کی جائے، خانہ جنگی سے بچاو کا راستہ ہے۔

جبکہ افغانستانی بحران کا حل ملک کے تمام مسلح گروہوں کو اسلحے سے پاک کرنے میں، اور افغانستان میں مذکورہ ممالک کی امن افواج کی تعیناتی میں ہے۔ یقینا، یہ حقیقت بھارت سے چھپی نہیں ہے، اور بھارت، چاہے وہ افغانستان میں خونی خانہ جنگی کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو، پاکستان کو اس دلدل میں ڈالنے کو ترجیح دے گا تا کہ یہ جنگ پاکستانی اقتصادی دیوالیے کا باعث بنے۔

شریک یي کړئ!