جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی ڈیڈلائن قریب آتے ہی اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کو روک دیا ہے۔ حماس نے اس اقدام کو "جنگی جرم" قرار دیتے ہوئے ثالثوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اس پالیسی کو ختم کرے۔ اسی دوران، اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ایک امریکی نمائندہ مذاکرات کو بچانے کے لیے مداخلت کر سکتا ہے۔
غزہ میں جنگ کے جاری رہنے اور انسانی بحران کے شدت اختیار کرنے کے ساتھ، اسرائیل کے اس فیصلے پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگی ظاہر کرتے ہوئے، امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان، برائن ہیوز نے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔
حماس نے اس فیصلے کو “سستا اور غیر انسانی بلیک میلنگ” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس پالیسی کو ترک کرنے پر مجبور کرے۔ اسی دوران، اسرائیلی اخبار ہاآرتص نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکی نمائندہ، اسٹیو وٹکاف، ثالثی کے لیے مداخلت کر سکتا ہے۔ تاہم، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اب بھی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد سے انکار کر رہے ہیں۔
سفارتی کوششوں کے باوجود، جنگ بندی مذاکرات کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ کیا اسرائیل بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جھک جائے گا، یا غزہ میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا؟