پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان، شفق علی خان، نے اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں زور دیا کہ اسلام آباد نے یہ مسئلہ بارہا طالبان کے ساتھ اٹھایا ہے اور دوطرفہ تعاون کے تسلسل کے لیے اس کا حل ضروری ہے۔
انہوں نے کہا:
“جب تک تحریک طالبان پاکستان کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں موجود ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تعاون ممکن نہیں ہوگا۔”
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے بجائے اسلام آباد کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں تعاون کریں۔
طالبان حکومت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی سیکیورٹی مسائل کا ذمہ دار افغانستان کو نہیں ٹھہرانا چاہیے۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی داخلی بدامنی اس کے اپنے اندرونی مسائل کا نتیجہ ہے اور اسے افغانستان سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔
دوسری طرف، اقوام متحدہ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں وسیع پیمانے پر موجود ہے۔
سال ۲۰۲۴ اب تک پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے لیے پچھلی ایک دہائی کا سب سے خونریز سال رہا ہے، جس نے کابل اور اسلام آباد کے درمیان سیکیورٹی کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔