افغانستان کے سرحدی علاقوں میں داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور پاکستان کی مالی و لاجسٹک حمایت نے طالبان کے خلاف آئندہ بہار میں ممکنہ شدید حملوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ طالبان کو مقامی عوام کی محدود حمایت اور انٹیلی جنس تک کم رسائی کے باعث داعش کی شناخت اور اس کے خلاف کارروائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، داعش خراسان کے کئی جنگجو “افغان مہاجرین” کے طور پر پاکستان سے افغانستان کے مشرقی علاقوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ جنگجو خاص طور پر کنڑ اور ننگرہار صوبوں میں سرحدی اور دور دراز دیہاتوں میں آباد ہو رہے ہیں۔ اس پیشرفت سے بہار کے آغاز کے ساتھ طالبان کے خلاف ممکنہ دہشت گرد حملوں کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔
طالبان کے لیے ان علاقوں میں کئی چیلنجز ہیں:
انٹیلی جنس کی محدود رسائی مشرقی اور شمالی افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کی شناخت کو مشکل بنا رہی ہے۔
مقامی عوام خوف کی وجہ سے طالبان کے ساتھ تعاون کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں داعش کی انتقامی کارروائیوں کا خوف ہے۔
اس کے علاوہ، پاکستان کی طرف سے داعش کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کیے جانے کی اطلاعات نے طالبان حکام میں مزید خدشات کو جنم دیا ہے۔ اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں داعش طالبان حکومت پر حملوں میں مزید شدت لا سکتی ہے۔