طالبان اپنے غیر عملدرآمد وعدوں کے باوجود افغانستان میں لڑکیوں کے لیے یونیورسٹیاں اور اسکول بند رکھے ہوئے ہیں۔ یہ پالیسی نہ صرف نوجوان نسل کی امیدوں کو تباہ کر چکی ہے، بلکہ جهادی اسکولوں اور انتہا پسندانہ تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے افغانستان کی معاشرتی مستقبل کو تاریک اور غیر واضح بنا دیا ہے۔
طالبان کے حکام نے افغانستان کے عوام کو لڑکیوں کے لیے یونیورسٹیوں کے دوبارہ کھولنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ وعدہ عملی نہیں ہو سکا۔ عوام کی توقع تھی کہ طالبان جلد سے جلد افغانستان کی لڑکیوں اور خواتین کی تعلیمی مشکلات کو حل کریں گے اور ملک کی لڑکیوں کے لیے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے کھول دیں گے۔
لیکن اب تک تین سال گزر چکے ہیں اور نہ صرف اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے، بلکہ ملک میں جهادی اسکولوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ، جو خشک اور سخت ثقافت اور جمود کا شکار ذہنیت کے حامل ہیں، میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ جهادی اسکول انتہا پسندانہ اور تکفیری نظریات کو پڑھاتے ہیں اور لڑکیوں اور نوجوانوں کو حقیقی تعلیم سے دور کرتے ہیں۔
اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے بند رہنے نے افغانستان کے عوام کی، خصوصاً آنے والی نسلوں کی، مستقبل کی امیدوں کو ختم کر دیا ہے۔ یہ پالیسی دماغی مہاجرت کو بڑھا رہی ہے اور افغانستان کے مستقبل کا ایک غیر واضح منظر پیش کر رہی ہے، جہاں غربت، ناخواندگی اور طالبان کی بقا کے لیے جاری جنگ اور کشمکش اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اور عوام کو اندھیروں اور مکمل جہالت میں رکھا جا رہا ہے۔