حصہ : افغانستان -+

زمان اشاعت : سه‌شنبه, 28 سپتامبر , 2021 خبر کا مختصر لنک :

افغانستان میں طالبان کی پرانی سزاؤں کی واپسی

طالبان کی سابقہ پالیسی میں تبدیلی کے اعلان کے بعد، ان کے ایک سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک بار پھر افغانستان میں سخت سزائیں دی جائیں گی۔


طالبان کے رہنما نے دنیا کو افغانستان کے نئے حکمرانوں کے خلاف محاذ آرائی سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ماضی کی سزاؤں کو دوبارہ نافذ کیا جائے گا، جیسے سزائے موت اور ہاتھ کا کاٹںا، لیکن یہ سزائیں کھلے عام نہیں دی جائی جائیں گی۔

سابق افغانستانی حکومت کے وزیر انصاف، نورالدین ترابی نے ماضی میں طالبان کی طرف سے پھانسی کی سزاؤں پر عوام کے غصے کی تردید کرتے ہوئے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ وہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کے مقابل نہ آئیں۔

کابل پر قبضے کے بعد، اور طالبان کے موبائل فون جیسے جدید آلات کے استعمال کے باوجود، افغانستانی عوام اور عالمی برادری کی نظر طالبان پر ہے کہ آیا یہ اپنے ماضی کے سخت قوانین کو دوبارہ نافذ کریں گے، یا اپنی روش کو تبدیل کریں گے۔

طالبان کے اس رہنما نے تنقید کے حوالے سے کہا: اسٹیڈیم میں سزا پر عملدرآمد کرنے پر ہر کوئی ہم پر تنقید کرتا ہے۔ لیکن ہم نے تنقید کرنے والوں کے قوانین اور سزاؤں کے بارے میں کبھی تبصرہ نہیں کیا۔

ترابی نے کہا کہ کسی کو یہ بتانے کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ طالبان کے قوانین کیا ہونے چاہئیں۔

ماضی میں طالبان چوروں کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتے تھے۔

ہاتھ کاٹنے کی سزا کے بارے میں ترابی نے کہا: یہ اقدام امن کے قیام کے لیے ضروری ہے اور اس کو جرم کو روکنے کی خاطر نافذ کیا جائے گا؛ کابینہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آیا سزائیں کھلے عام دی جائیں گی، اور اس معاملے میں ایک مخصوص پالیسی بنائی جائے گی۔

طالبان اب چوری کے الزام میں ملوث کچھ مجرموں کا چہرہ کالا کر رہے ہیں اور انہیں شہر میں پھرا رہے ہیں؛ وہ اس عمل کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔

ترابی طالبان کی اس عبوری حکومت کے تحت زندانوں کی سربراہی کر رہے ہیں، اور گروہ کے کئی دیگر سینئر اراکین کے ناموں کے ساتھ، ان کا نام بھی اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں موجود ہیں۔

طالبان کے اس سینئر رکن نے مزید کہا: طالبان اب ماضی جیسے نہیں ہیں اور انہوں نے ٹیلی ویژن، موبائل فون، اور لوگوں کی تصاویر اور ویڈیوز کے استعمال کی اجازت دے دی ہے؛ ہم میڈیا کا استعمال لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کریں گے۔

سینئر طالبان حکام نے ابھی تک اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

شریک یي کړئ!

منتخب خبریں