اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مشیر برائے انسانی امور نے سال ۲۰۲۱ کے پہلے چھ ماہ میں ۴۵۰ افغانستانی بچوں کی ہلاکت کی خبر دی ہے۔
سی این این کے مطابق، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مشیر برائے انسانی امور نے رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افغانستانی بچوں کی تعداد کے بارے میں حیران کردینے والے اعدادوشمار جاری کیے ہیں۔
مارٹن گریفتھس نے سی این این سے اپنے افغانستانی دورے کے بارے میں، طالبان سے مذاکرات کے بارے میں، امریکی فوج کی جانب سے کابل میں ڈرون حملے کے اعتراف کے بارے میں، اقوام متحدہ کے ایک امدادی کارکن اور ۱۰ بچوں سمیت متعدد شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں، ریموٹ ایئر سٹرائیک (OHC) استعمال کرنے پر امریکی فیصلے کے بارے میں، اور ان حملوں میں غلطی کے خدشات کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا: ہم ہمیشہ امریکہ سے اس کے اقدامات سے پیدا ہونے والے انسانی اثرات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس غم اندوہ واقعے کے بارے میں میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ واقعہ افسوس ناک ہے، اور ضروری طور پر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس تنازعے میں بے گناہ لوگ افسوسناک طور پر مارے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا: ڈرون حملے میں دس بچے مارے گئے تھے جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں افغانستان میں ۴۵۰ سے زائد بچے مارے گئے ہیں۔
اس دوران ۱۲۰۰ سے زائد بچے شدید زخمی بھی ہوئے۔ بدقسمتی سے اپنی خدمت میں مشغول ایک پیرامیڈک پر بھی حملہ ہوا۔ یہ حملہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم افغانستان کو ایک مستحکم ملک بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں، تاکہ اس طرح کے حملے کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔
گریفتھس نے افغانستان میں انسانی صورت حال، اور طالبان رہنماؤں کی جانب سے دی گئی یقین دہانیوں کے بارے کہا: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مجھے طالبان رہنماؤں سے رابطہ کرنے اور انہیں یہ بات سمجھانے کے لیے افغانستان بھیجا کہ افغانستان سمیت دنیا بھر میں جو انسانیت دوستی کے نام پر اقدامات کئے جارہے ہیں، یہ کس بنیاد پر کئے جارہے ہیں؟
انہوں نے کہا: ہمارا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ طالبان انسانی امداد کی فراہمی کے اصولوں اور معیاروں کو سمجھیں۔ میں نے اس مسئلے پر ملا برادر، اور ان کے اہم مشیروں سے بھی بات کی۔